گرہ باندھے اور اس کے ساتھ قدموں کو جما دے۔‘‘
ابن جریر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ
’’رات کو بارش برسی،اگلے دن ’’بروز جمعہ‘‘ جنگ بدر ہوئی۔ہم نے بارش کی وجہ سے رات درختوں اور ڈھالوں کے تلے بسر کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (رات کو) نماز میں مصروف رہے اور لڑائی کے لیے آپ نے لوگوں کو آمادہ و تیار کیا۔‘‘[1]
ڈاکٹر مہدی رزق اللہ احمد لکھتے ہیں :
’’اسی رات اللہ تعالیٰ نے بارش برسائی جس سے مومنین کو طہارت کی سہولت نصیب ہوئی،نیز زمین کی مٹی جم گئی جس سے چلنے پھرنے اور بھاگنے دوڑنے میں آسانی ہو گئی۔لیکن دوسری طرف قریش کا پڑاؤ ایسی جگہ تھا کہ ان کے لیے یہ بارش مصیبت بن گئی۔‘‘[2]
۳۔بدر کی رات آنسوؤں کی برسات:
غزوۂ بدر تاریخ اسلام کے اہم ترین واقعات میں سے ہے۔بعض اعتبار سے یہ فتح مکہ سے بھی اہم ہے۔اس لیے کہ معرکہ بدر تاریخ اسلام کا وہ واحد واقعہ ہے جب اسلام خطرے میں تھا۔جب اسلام کی کشتی بیچ منجھدار ڈوبنے کو تھی۔جب مشرکین نہتے اور بے کس مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے تھے۔جب رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی کے باوجود اسلام کے دشمن دین اسلام کا ایک بھی نام لیوا زندہ چھوڑنے کے روادار نہ تھے۔وہی ایک ایسا موقع تھا کہ جس کے بارے میں بلاشک و شبہ کہا جاسکتا ہے کہ اسلام خطرے میں تھا....آج سانحہ کربلاء کے بارے میں ایک ہی بات کی جارہی ہے کہ اسلام خطرے میں تھا،اسلام ختم ہو رہا تھا۔اسلام کی کشتی ڈوب رہی تھی۔
|