Maktaba Wahhabi

322 - 391
حدیث مبارکہ سے اصلاحِ عقیدہ کے چند نکات ۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین مکہ کے لشکر سے زیادہ سے زیادہ چند فرلانگ کے فاصلے پر تھے۔اس کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں نہ تھا کہ مشرکین اس وقت کیا کر رہے ہیں ؟ان کی مصروفیات کیا ہیں ؟ ۲۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مشرکین کے آئندہ کے ارادوں سے بے خبر تھے۔اسی لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصحابِ عزیمت و فضیلت سے کہا کہ کوئی جائے اور دشمن کی خبر لائے۔ ۳۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسلامی لشکر میں تھے۔اگر آپ کے لیے حاضر و ناظر کا عقیدہ رکھا جائے تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھلا اس کی کیا حاجت تھی کہ آپ نے اپنے ایک جاں نثار کو سخت سردی کے باوجود دشمن کی صفوں میں بھیجا؟ ۴۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمۃ للعالمین تھے۔آپ تو روؤف رحیم تھے۔کیسے ممکن تھا کہ آپ بلا سبب اپنے کسی ساتھی کی جان خطرے میں ڈالتے؟ ۵۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسا سوچنا بھی شدید گناہ ہے۔ ۶۔ حضراتِ صحابہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کہنے کے باوجود بیٹھے رہنا بشری تقاضوں کی بنا پر تھا،موسم کی سختی کی وجہ سے ایک کا خیال تھا کہ دوسرا مشرکین کی خبر لے آئے گا اور دوسرے کا خیال تھا کہ تیسرا چلا جائے گا۔ورنہ ان کی محبت اور اطاعت تو بے مثال تھی۔ ۷۔ حضراتِ صحابہ کو اللہ تعالیٰ کی نصرت اور اپنی فتح کا کامل یقین تھا۔ ۸۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسباب کو بروئے کار لا کر اپنے معاملات پایہ تکمیل تک پہنچایا کرتے تھے اور ایسا کرنا آپ کی شان کے منافی نہیں تھا۔ ۹۔ حضراتِ صحابہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت میں کسی طرح کی بھی کوتاہی نہیں کرتے
Flag Counter