نے ان کی دعوت کا جواب نہ دیا،اسے سزا ملی۔‘‘[1]
۹۔فرشتے کا رات کے وقت خوش خبری لے کر نازل ہونا:
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میری والدہ ماجدہ نے مجھ سے پوچھا،تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور کب جایا کرتا ہے؟ میں نے کہا کہ میں کچھ عرصے سے حاضر نہیں ہوا،ویسے بھی میرا کوئی خاص معمول نہیں۔اس پر والدہ محترمہ نے میری خوب نالش کی،مجھ سے ناراض ہوئیں۔میں نے ان سے کہا کہ آپ ناراض نہ ہوں۔میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دوں گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز مغرب ادا کروں گا اور آپ سے عرض کروں گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے اور میری والدہ کے لیے ضرور دعائے مغفرت فرمائیں۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا۔نماز مغرب آپ کی اقتدا میں پڑھی۔نماز کے بعد آپ نوافل ادا کرتے رہے،پھر آپ نے نمازعشا پڑھی۔اس کے بعد میں آپ کے ساتھ نکلا۔آپ نے پوچھا کون؟ حذیفہ؟ عرض کی جی ہاں ! آپ کا غلام حذیفہ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے؟ اللہ تعالیٰ تمہاری اور تمہاری والدہ کی مغفرت فرمائے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ ایک فرشتہ تھا جو کہ آج کی رات سے پہلے کبھی زمین پر نازل نہیں ہوا۔اس نے اپنے رب سے اجازت طلب کی کہ مجھے سلام کرنا چاہتا تھا اور اس نے مجھے یہ خوش خبری دی کہ فاطمہ سیدۃ نساء اہل الجنۃ ہیں یعنی جنت کی عورتوں کی سردار ہیں اور حسن و حسین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔‘‘[2]
|