تلاش کر رہے تھے۔
۴۔ جب ہم حضرت آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے حاضر و ناظر کا عقیدہ رکھیں گے تو پھر تسلیم کرنا ہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ طیبہ سے نکلنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔آپ اپنے مقدس شہر میں ہی یہ ارشاد فرماسکتے تھے کہ اس وقت مشرکین مکہ کا قافلہ فلاں جگہ پہنچ چکا ہے اور ان کی اگلی منزل فلاں ہوگی۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہمراہ کم و بیش تین سو تیرہ جاں نثاروں کو لے کر نکلے اور بدر کے میدان پر پہنچ کر قیام فرمایا۔مطلب یہ کہ آپ کو حتمی علم نہ تھا کہ مشرکین مکہ کا تجارتی قافلہ کہاں ہے۔کیونکہ اللہ رب العزت نے وحی کے ذریعے اپنے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس کی خبر نہیں دی تھی۔
مندرجہ بالا گذارشات کا مطلوب سیدھے سادے مسلمانوں کے عقاید کی اصلاح ہے۔سلف صالحین کے منہج سے ہٹ کر،اکابر علمائے اُمت،ائمہ اربعہ بالخصوص حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے تفقہ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے گنتی کے چند مسائل کو احترام نبوت کا معیار ٹھہرا دیا گیا ہے،اس لیے اس تحریر میں ایسی احادیث مبارکہ جن پر تدبر و تفکر کرنے سے عقاید کی اصلاح ہوتی ہو،بعض مقامات پر ان سے اخذ ہونے والے نتائج و دروس بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
۴۔میدان بدر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اونگھ آنا:
غزوۂ بدر میں کچھ محیر العقول واقعات بھی رونما ہوئے۔خصوصاً فرشتوں کا اسلامی لشکر کی اعانت کے لیے نازل ہونا۔کتب سیرت و مغازی میں ایسا ہی ایک ایمان افروز قصہ درج ہے جو قارئین کرام کے گوش گزار کیا جاتا ہے۔
مولانا صفی الرحمن مبارکپوری لکھتے ہیں :
’’اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک جھپکی آئی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر اٹھایا اور فرمایا: ابوبکر خوش ہو جاؤ،یہ جبرئیل ہیں۔گرد و غبار میں اٹے
|