۸۔اُحد کے لیے روانگی اور رات کا قیام:
مکہ والے بدر کی ہزیمت کا بدلہ لینے کے لیے مدینہ طیبہ پر چڑھائی کر چکے تھے اور اُحد کے قریب آگئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مقابلے کے لیے اپنے جاں نثاروں کے ہمراہ نکلے۔حضراتِ صحابہ میں سے جو چند ایک بدر میں شرکت کی سعادت سے محروم رہ گئے تھے،وہ بہت پرجوش تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازِ عصر معمول کے مطابق پڑھائی اور پھر حجرۂ مبارک میں تشریف لے گئے۔آپ کے ہمراہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی تھے۔انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو عمامہ پہنایا اور جنگی لباس زرہیں وغیرہ پہنانے کی سعادت حاصل کی۔پھر جب آپ لشکرکی قیادت کرتے ہوئے روانہ ہوئے تو ’’شیخان‘‘ نامی مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم رُک گئے۔وہاں لشکر کا معائنہ فرمایا اور کم سن بچوں اور جنگ کے لیے نا مناسب (مثلاً معذور) افراد کو واپس کر دیا۔اس دوران شام ڈھل چکی تھی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہیں نمازِ مغرب اور نمازِ عشاء اپنے اپنے وقت پر ادا فرمائی۔پھر اس جگہ رات گزارنے کا فیصلہ بھی ہوا۔حضرت محمد بن سلمہ رضی اللہ عنہ کے زیر قیادت پچاس صحابہ کی جماعت لشکر اسلام کی حفاظت اور پہرہ داری کر رہی تھی۔وہ لوگ رات بھر جاگتے رہے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جاں نثاروں کی نگہبانی میں مصروف رہے۔رات کے اندھیرے میں ہی طلوع فجر سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم روانہ ہو گئے اور مقام ’’ شوط‘‘ پہنچ کر نماز فجر ادا فرمائی۔[1]
۹۔جب میدان احد میں صحابہ کرام کو اونگھ نے ڈھانپ لیا تھا:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم بے ہوش ہوگئے تھے اور ہم احد کے دن لڑائی کے مقام پر تھے۔حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ وہ بھی ان لوگوں میں شامل تھے جنہیں اونگھ نے ڈھانپ لیا تھا۔پھر کہا کہ میری تلوار میرے
|