فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ () إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ ﴾
اب آپ ذرا اس عربی عبارت پر غور فرمایے!
﴿ فَمَنْ يُرِدِ اللَّهُ أَنْ يَهْدِيَهُ يَشْرَحْ صَدْرَهُ لِلْإِسْلَامِ ﴾
یہ سورۃ الانعام کی آیت مبارکہ ۱۲۵ کے ابتدائی الفاظ ہیں۔اس کے بعد وہو علی من ربہ فویل یہ اس آیت میں نہیں۔بلکہ کسی اور آیت مبارکہ میں بھی نہیں۔
اس کے بعد سورۃ الحج کی آیت مبارکہ ۵۳ میں یہ دو لفظ والقاسیہ قلوبہم تو ملتے ہیں لیکن من ذکر اللّٰہیہ کسی بھی آیت میں نہیں۔اس کے بعد سورۃ الکوثر اپنے محبوب کو اپنا عاشق بنانے اور اس کی نیندیں اڑانے والے اس عمل کا حصہ بنائی گئی ہے۔
آیاتِ قرآنیہ کی اہانت
قارئین کرام!
قطع نظر اس کے کہ یہ عمل کس کتاب میں درج ہے اور کون اس عمل کا اختراع کرنے والا ہے،سوال یہ ہے کہ آیات قرآنیہ کے ساتھ اس قسم کا سلوک قرآن کریم میں تحریف کے مترادف نہیں ؟ اگر یہودی ’’الفرقان‘‘ نامی کتاب میں ایسا کریں تو وہ مجرم اور مسلمان مولوی تعویذات و عملیات کے نام پر آیات قرآنیہ مبارکہ مقدسہ کے پرخچے اڑا دیں،مختلف آیاتِ مبارکہ کو ایک دوسرے سے خلط ملط کرلیں تو ہم پھر بھی حاجی نمازی متقی مسلمان....اللہ رب العزت کی پناہ ایسے عمل سے۔
کیا قرآن کریم اس مقصد کے لیے نازل ہوا تھا کہ لوگوں کی نیندیں ختم کر دی جائیں اور نیند بھی عشق و عاشقی کے لیے؟ تف ہے ان لوگوں پر جو قرآن کریم کی آیات مبارکہ کے ساتھ ایسا گھناؤنا سلوک کرتے ہیں۔یہ تو انسانیت کے بھی خلاف ہے اور
|