ایک روز آپ کو اپنے محبوب سے جدائی کا صدمہ اٹھانا ہی پڑے گا۔آپ جو عمل بھی کرنا چاہتے ہیں،کر لیجئے۔ایک روز آئے گا کہ آپ کو ان اعمال کا بدلہ ملے گا۔پھر کہا:
اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! ایک مومن کے لیے شرف و بزرگی کی علامت قیام اللیل ہے اور اس کی عزت لوگوں سے مستغنی ہونے میں ہے۔‘‘ [1]
۵۔کیا جبرائیل علیہ السلام کا اسلوبِ گفتگو بے ادبی سمجھا جائے گا؟
اس حدیث مبارکہ میں جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے گفتگو کا جو اسلوب اختیار فرمایا،اگر کوئی اور شخص یہ بات کہہ دے تو ہو سکتا ہے کچھ لوگ اسے ’’گستاخِ رسول‘‘ قرار دے کر واجب القتل کا فتویٰ لگا دیں۔حضرتِ جبرائیل ملائکہ کے سردار ہیں اور فرشتوں کے بارے میں یہ بات واضح ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتے۔دوسرے الفاظ میں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جو پیغام دیا،وہ درحقیقت اللہ رب العزت کی طرف سے تھا۔یعنی کل کائنات کے مالک اور پروردگار نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کو پیغام بھجوایا کہ آپ جتنا جی چاہے زندگی گزار لیں آخر ایک روز آپ کو بھی ....؟؟ یہاں کیا لفظ لکھیں ؟ انتقال؟ وصال؟ پردہ؟
جی نہیں۔اللہ تعالیٰ کو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم سے جو محبت ہے،وہ قیامت تک آنے والے انسان مل کر بھی نہیں کر سکتے۔اس لیے رب العزت نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جن الفاظ میں خطاب فرمایا ہے،وہی ادب و احترام کے اعلیٰ مراتب پر پورا اترتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں فرما دیا ((عِشْ مَا شِئْتَ فَاِنَّکَ مَیِّتٌ)) اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )!
|