Maktaba Wahhabi

283 - 391
حدیث مبارکہ سے معلوم ہونے والی کچھ باتیں ۱۔ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام کا خیال رکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیدار نہ کیا جائے۔ ۲۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش تھی کہ اس عورت کی نمازِ جنازہ میں شمولیت کی جائے۔مگر آپ کی یہ خواہش پوری نہ ہوئی۔ ۳۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے معلوم ہوتا کہ میں اس کے جنازے میں شریک نہیں ہو سکوں گا تو آپ اپنے ساتھیوں کو تدفین سے منع کرنے کی ہدایت جاری نہ فرماتے۔ ۴۔ جب وہ عورت فوت ہوئی تو اس کا جنازہ مسجد نبوی سے ہی اُٹھایا گیا تھا۔جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے۔یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رہائش گاہ کے بالکل قریب سے۔ ۵۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف کریمانہ قرآن و سنت میں خوب وضاحت سے بیان ہوئے ہیں۔اُمت کے لیے رأفت و رحمت کا سمندر آپ کے قلب اطہر میں موجز ن تھا۔کیسے ممکن تھا کہ آپ کو علم ہوتا کہ میں اس صحابیہ ....جو کہ مسجد نبوی میں جھاڑو دینے کی عظیم سعادت حاصل کرتی تھیں ....کے سفر آخرت میں شریک نہیں ہوں گا تو آپ پھر بھی سوئے رہتے؟ رب العزت کی قسم! ایسا سوچنا بھی بارگاہِ نبوت میں بے ادبی کے مترادف ہے۔ ۶۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعاؤں پر سب سے زیادہ حق آپ کے اُمتیوں کا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حقوق کی ادائیگی کا خیال کرنے والا کوئی نہیں تھا۔اس کے باوجود وہ صحابیہ اپنے اولین جنازے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں سے محروم رہی۔وجہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم محو استراحت تھے اور آپ کے علم میں نہ تھا کہ جوارِ نبوت
Flag Counter