جو کچھ اللہ نے چاہا،اسے سخت لگ جائے۔وہ اپنے دل میں سوچے کہ مجھے اب گھر واپس چلے جانا چاہیے اور جب وہ واپس ہوا اور پھر سو گیا لیکن اس نیند سے جو سر اٹھایا تو اس کی سواری وہاں کھانا پینا لیے ہوئے سامنے کھڑی ہے تو خیال کرو اس کو کس قدر خوشی ہوگی؟ (یعنی بندۂ مومن کی توبہ سے اللہ تعالیٰ اس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتے ہیں۔)[1]
اللہ تعالیٰ کا خوش ہونا ان کی صفات میں سے ہے۔اہل سنت کا عقیدہ صفات الٰہی کے بارے میں ہے کہ ہم ان کی تاویل نہیں کریں گے اور ان پر بلا کم و کاست ایمان لائیں گے۔ان کی کیفیت و ماہیت وہی بہتر جانتے ہیں کہ جن کی یہ صفات ہیں۔
۳۴۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا تحصیل حدیث کے لیے تگ و دو کرنا:
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی تھی کہ اے اللہ اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما۔چنانچہ ان کا شمار اکابر علماء صحابہ میں ہوتا تھا۔’’ترجمان القرآن‘‘ان کا لقب تھا۔جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو انہوں نے ایک انصاری سے کہا کہ ہم اصحاب رسول سے احادیث کا علم حاصل کریں لیکن اس انصاری نے ان کی بات کو اہمیت نہ دی،الٹا ان کی حوصلہ شکنی کی۔مگر ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ہمت نہ ہاری اور تحصیل علم میں منہمک رہے۔
وہ ایک انصاری صحابی کے پاس کثرت سے جاتے تھے۔جب بھی انہیں کسی حدیث کا علم ہوتا تو وہ اس انصاری صحابی کی خدمت میں حاضر ہوتے۔وہ قیلولہ کر رہے ہوتے تو حضرت ابن عباس ان کے گھر کے باہر ہی اپنی چادر کا تکیہ بنا لیتے اور وہیں دراز ہو جاتے۔کبھی ایسا بھی ہوتا کہ ابن عباس اس انصاری صحابی کے گھر کے باہر سو رہے ہوتے تو ہوا چلنے سے ان کے چہرے پر گرد و غبار بھی پڑتا۔لیکن تمام تر ناموافق حالات
|