اس بات کا خیال رہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول صرف رمضان کے اس آخری عشرے میں ہوتا تھا۔ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سال کے باقی ایام میں بلکہ رمضان المبارک کی ہی دیگر راتوں میں حسب معمول سوتے بھی تھے اور جاگتے بھی تھے۔اس حدیث مبارکہ سے واضح معلوم ہو رہا ہے کہ حضرت آقا علیہ السلام کا اسوۂ مبارک کیا تھا۔اس کے بعد اگر کوئی شخص ساری ساری رات عبادت کے لیے بیدار رہتا ہے،نیند کے پاس نہیں پھٹکتا،نوافل ادا کرتا ہے،تلاوتِ قرآن کریم میں مشغول رہتا ہے،وظائف کرتا ہے،دعائیں کرتا ہے غرض وہ جس طریقے سے بھی عبادت کرتا ہے،اس کا یہ معمول بہر صورت اسوۂ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منافی شمار ہوگا۔
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ اس سلسلے میں نص قطعی سمجھی جائے گی۔(اگرچہ اس کے اور بھی دلائل موجود ہیں )۔اگر اکابر ائمہ و علماء امت میں سے کسی کے بارے میں ایسی باتیں ملتی ہیں کہ وہ برس ہا برس ساری ساری رات عبادت کرتے رہتے تھے تو دو باتوں میں سے ایک ضرور ماننی پڑے گی۔
۱۔ یہ بعد میں آنے والے معتقدین کی غلو پر مبنی خوش اعتقادی سمجھی جائے گی۔اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
۲۔ بصورت دیگر ان حضرات کا یہ کام سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منافی ماننا پڑے گا۔
رب العزت ہمیں نفلی عبادات کا بھی وہی سلیقہ اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے عین مطابق ہو۔
۱۰۔لیلۃ القدر (یعنی طاق راتوں ) میں قیام کرنے کا ثواب:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’جس شخص نے رمضان المبارک کے روزے ایمان کی حالت میں ثواب کی امید سے رکھے،اس کے گذشتہ تمام گناہ معاف کر دیے گئے۔اور جس
|