میں کچھ کرتا ہے،اور پھر باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ اس کے گناہ کو چھپاتے ہیں،وہ صبح (بڑے فخر سے) یہ کہے کہ رات میں نے فلاں فلاں گناہ کا ارتکاب کیا ہے۔(حالانکہ) رات بیت چکی تھی اور اس کے رب نے تو اس کا پردہ رکھا مگر اس گناہ گار نے صبح ہونے پر اللہ کے رکھے ہوئے پردے کو خود ہی چاک کر دیا۔‘‘[1]
اپنے گناہوں کا فخریہ اظہار انسان کی جہالت کی علامت ہے۔لوگوں کی سوانح اور خود نوشت کا مطالعہ کریں تو بعض بڑے ادیب اور نامور لکھاری اپنے گناہوں کا اعلان کرتے نظر آتے ہیں۔اپنی خلوتوں کے قصے،زندگی کی رنگینیوں کی کہانیاں اپنی جگ بیتیوں میں بیان کرتے ہیں کہ گویا ان گناہوں کی تشہیر ان کی کشادہ ظرفی اور روشن خیالی کی علامت ہے۔درحقیقت یہ اسلوب ان کے سطحی شعور کی عکاسی کرتا ہے۔انسان کو ضرور اپنے گناہوں کا اعتراف کرنا چاہیے مگر ستار العیوب کے حضور نہ کہ لوگوں کے سامنے اور اس اعتراف کی غایت استغفار ہونا چاہیے نہ کہ افتخار۔
۲۹۔دن اور رات کے اذکار سے عمدہ ذکر:
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ:
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے جبکہ وہ اپنے ہونٹوں کو ہلا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: اے ابو امامہ! کیا تم کچھ پڑھ رہے ہو؟ انہوں نے عرض کیا: اپنے رب کا ذکر کر رہا ہوں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہیں تمہارے دن اور رات کے اور رات اور دن کے ذکر سے زیادہ اجر و ثواب والے یا افضل ذکر کی خبر نہ دوں ؟ وہ یہ کہ تم پڑھو:
((سُبْحَانَ اللّٰہِ عَدَدَ مَا خَلَقَ وَسُبْحَانَ اللّٰہِ مِلْ ئَ مَا خَلَقَ،
|