تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دوسرا بھی اسی طرح ہے‘‘ پھر ایک اور نے کہا تو جب زیادہ لوگ ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میری سفارش ہر اس شخص کے لیے ہوگی جو لا الہ الا اللّٰہ اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت دیتا ہو۔‘‘ [1]
۳۷۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم گناہ گاروں کے لیے بے مثال شفقت و رأفت:
میرے ماں باپ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام پر قربان۔آپ کو اپنی امت کا کس قدر خیال تھا....! اور ایک ہم گناہ گار ہیں کہ قدم قدم پر اپنا دامن عصیاں سے آلودہ کرتے جا رہے ہیں۔اپنے گناہوں پر نگاہ دوڑائیں تو کوئی شمار ہی نہیں۔ہمارا تو وہ حال ہے کہ ....
خوفِ خدائے پاک دلوں سے نکل گیا
آنکھوں سے شرم سرور کون و مکاں گئی
تصور تو کیجیے وہ کیسی برکتوں والی رات ہوگی جب میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم یاد الٰہی میں مصروف ہوں گے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع و سجود میں مناجات فرما رہے ہوں گے۔جب آپ دامن مبارک بارگاہ الٰہ العالمین میں پھیلائے ہوئے ہوں گے....ذرا سوچیے! حضرت آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اس عبادت و ریاضت کی بھلا کیا حاجت تھی؟
آپ تو وہ تھے کہ آپ کے اگلے پچھلے گناہ معاف تھے۔یعنی اللہ رب العزت نے آپ کو ادنیٰ سے ادنیٰ خطا سے بھی محفوظ و مأمون رکھا تھا۔پھر آپ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اتنی عبادت کیوں کرتے تھے کہ آپ کے قدم ہائے مبارک پر ورم آجاتے تھے؟
آپ اپنے مہربان رب کے حضور نماز تہجد میں اتنی شدت سے گریہ زاری فرماتے تھے،ام المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : آپ کے سینے سے ایسے آواز آتی جیسے ہنڈیا ابل رہی ہوتی ہے۔ذرا غور تو کیجیے! یاد الٰہی کی ان انتہاؤں کا پس منظر کیا
|