نہ بانٹ دینا،اللہ تعالیٰ نے یہ بات نہیں مانی۔‘‘[1]
حدیث مبارکہ سے معلوم ہونے والی کچھ باتیں
۱۔ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رات بھر نماز پڑھنے پر حیرت کا اظہار کرنا اورپھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرنا ظاہر کرتا ہے کہ ساری ساری رات جاگ کر عبادت کرنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول نہ تھا۔ورنہ وہ یہ نہ کہتے کہ میں نے آپ کو اس سے پہلے اس طرح اتنی نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔
۲۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز میں بار بار تین دعائیں فرماتے رہیں۔
۳۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام تر شان و عظمت کے باوجود،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام دعائیں قبول نہ ہوئیں۔صرف وہی دعائیں قبول ہوئیں جو اللہ تعالیٰ نے چاہیں۔
۴۔ اس کائنات کے تمام امور تقدیر الٰہی کے تابع ہیں۔
۵۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہرحال عالم الغیب نہیں تھے۔آپ کو کان و ما یکون کا علم نہ تھا۔اس لیے کہ اگر آپ کو پہلے سے ہی معلوم تھا کہ میری دو دعائیں قبول ہونی ہیں اور ایک قبول نہیں ہو گی تو آپ کیوں رات بھر وہ دعا کرتے رہے؟
۶۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر بارگاہ رب العالمین کے آداب و مراتب سے کون واقف ہو گا؟ کوئی بھی نہیں۔اس کے باوجود آپ کا اس دعا پر اصرار و تکرار کرنا جو قبول نہیں ہو رہی تھی،ظاہر کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دعا کی عدم قبولیت کا پہلے سے علم نہ تھا۔
۷۔ یہ تصور بھی محال ہے بلکہ گناہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ رب العزت کے فیصلے کے خلاف ایک نامقبول دعا پر اصرار کرتے رہے۔
|