میں مقیم تھے۔آپ اپنی بیویوں سے انتیس راتوں تک علیحدہ رہے۔پھر آپ بالا خانے سے نیچے تشریف لائے تو لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے تو ایک مہینے تک جدا رہنے کا عہد کیا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مہینہ کبھی انتیس کا بھی تو ہوتا ہے۔‘‘[1]
ہوا یہ تھا کہ سیدہ حفصہ نے سیدہ عائشہ سے راز کی کوئی بات کہہ دی تھی،جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بہت ناراض ہوئے اور اس ناراضی کے سبب آپ نے قسم کھا لی کہ میں ایک مہینہ تک ان کے پاس نہیں جاؤں گا۔اس قصے کی تفصیل کتب تفسیر میں سورۃ التحریم کے تحت اور صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ میں ملتی ہے۔
۶۲۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات بسر کرنا:
امیر المومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس آئے،ہمارے ہاں رات گزاری۔حسن و حسین بھی سو رہے تھے۔(رات کو) حسن نے پانی مانگا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے مشکیزے کی طرف گئے۔اس سے پیالے میں پانی نکالا،پھر اسے پلانے کے لیے لے آئے،(حسن کی بجائے وہ پیالہ) حسین نے پینے کے لیے پکڑنا چاہا لیکن آپ نے نہ پینے دیا۔پھر حسن سے ابتدا کی۔سیّدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسے لگتا ہے کہ آپ کو حسین کی نسبت حسن زیادہ محبوب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ بات نہیں ہے،(دراصل) حسن نے پہلے پانی طلب کیا تھا (اس لیے پہلے پینے کا حق بھی اسی کا ہے)۔‘‘ پھر فرمایا: میں،تم،یہ دونوں اور یہ سونے والے (یعنی علی رضی اللہ عنہ ) روزِ قیامت ایک مقام میں ہوں گے۔‘‘
|