Maktaba Wahhabi

372 - 391
ان دونوں سے مراد سیّدہ فاطمہ کے بیٹے حسن و حسین ہیں (رضی اللہ عنہم)۔[1] فوائد:....سبحان اللہ! چشم فلک نے ایسا انصاف پرور انسان دیکھا ہی نہیں جیسے ہمارے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے۔آپ کے لیے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما دونوں ہی برابر تھے۔لیکن سیّدناحسین رضی اللہ عنہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کو اس لیے ترجیح دی کہ حق ان کا تھا،انہوں نے پہلے پانی مانگا تھا۔اتنی معمولی سی بات میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ناانصافی اور حق تلفی گوارا نہیں تھی تو کیسے ممکن تھا کہ خلافت امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق ہوتی اور آپ اس حق تلفی کو گوارا کرلیتے؟ اگر ایسا ہی ہوتا تو آپ یقیناً دو ٹوک اور واضح الفاظ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کا اعلان فرما دیتے اور اپنے حین حیات مسلمانوں کے مصلیٰ امامت پر خلیفۃ المسلمین ابوبکر رضی اللہ عنہ کی بجائے علی رضی اللہ عنہ کو مامور فرماتے۔خصوصاً جبکہ آپ کو ’’علم غیب‘‘ بھی تھا جیسا کہ خلافت علی کے قائلین کا عقیدہ ہے۔ اللہ رب العزت ہمارے دلوں میں اہل بیت عظام کی سچی محبت نصیب فرمائے اور ہمیں ازواج مطہرات،خلفائے ثلاثہ و دیگر اصحاب رسول اور امیر المؤمنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کے مقام کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور انہیں گالیاں دینے اور ان پر طعن و تشنیع کرنے سے بچائے اور ان سب کے دشمنوں کو رب العزت ذلیل و رسوا کریں۔ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما معصوم بچے تھے۔ذرا سوچئے! وہ کس قدر خوبصورت منظر ہوگا جب ہمارے پیارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے پھولوں کو رات کے وقت پانی پلا رہے ہوں گے۔سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہے ہوں گے اور ہاتھ بڑھا کر کہہ رہے ہوں گے کہ نانا جان پہلے مجھے پہلے مجھے اور سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ کہہ رہے ہوں گے نانا جان میں نے پہلے مانگا تھا۔مجھے پہلے دیں۔اللہم صلی علی محمد و علٰی آل محمد۔
Flag Counter