کر پہاڑ کی دوسری طرف چلا گیا۔‘‘[1]
چاند کا دو ٹکڑے ہونا ایک معمولی واقعہ نہیں تھا۔معجزہ اگرچہ ہوتا ہی محیر العقول واقعہ ہے۔اس عظیم معجزے کے باوجود کفار مکہ کے دل رب العالمین کی طرف پلٹنے سے محروم تھے۔ان کی بدنصیبی ملاحظہ کیجیے کہ پہلے خود ہی مطالبہ کر رہے تھے کہ ہمیں کوئی نشانی دکھائیے۔پھرجب اللہ رب العزت کے حکم سے ایک عظیم نشانی ظہور پذیر ہو گئی تو ہٹ دھرمی اور ضد کا مظاہرہ کرنے لگ گئے۔کہنے لگے کہ یہ تو جادو ہے جو ابن ابی کبشہ نے ہماری آنکھوں پر کر دیا ہے۔لیکن انہیں کسی عقل مند نے کہا کہ اتنی جلدی یہ رائے قائم نہ کرو۔حضرت امام بخاری نے ایک معلق روایت بیان کی ہے،جو مسند ابی داؤد طیالسی میں سند کے ساتھ ہے۔حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاند دو ٹکڑے ہوا تو کفار نے کہا یہ ابن ابی کبشہ کا جادو ہے۔باقی لوگوں نے کہا محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام دنیا پر تو جادو نہیں کر سکتے۔دیگر مقامات سے مسافروں کو آنے دو۔دیکھو وہ کیا کہتے ہیں۔چنانچہ مختلف سمت سے مسافر آئے تو سب نے اس بات کی تصدیق کی۔[2]
۷۔بعثت کی راتوں میں پتھر کا سلام کرنا:
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’بے شک مکہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے،جن راتوں کو میں مبعوث ہوا تھا،وہ مجھے سلام کرتا تھا،میں اس پتھر کو اب بھی پہچانتا ہوں۔‘‘[3]
|