اور نہ لوگ اپنے ساتھ (پانی) لیے ہوئے ہیں۔اس کے بعد حضرت ابوبکر (خیمے کے) اندر آئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت اپنا سر مبارک میری ران پر رکھے ہوئے سو رہے تھے۔ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے تمہاری وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اور سب لوگوں کو رکنا پڑا۔اب نہ یہاں کہیں پانی ہے اور نہ لوگوں کے ساتھ پانی ہے۔سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے مجھ پر غصہ کیا اور جو اللہ کو منظور تھا،انہوں نے کہا اور اپنے ہاتھ سے میرے پہلو میں کچوکے لگانے لگے۔میں ضرور تڑپ اٹھتی مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک میری ران پر تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اطمینان سے سوتے رہے۔
جب صبح ہوئی تو پانی نہیں تھا اور اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے تیمم کا حکم نازل فرمایا اور سب نے تیمم کیا۔اس پر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے آل ابوبکر! یہ تمہاری کوئی پہلی برکت نہیں ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر جب ہم نے اس اونٹ کو اٹھایا جس پر میں سوار تھی تو ہار اس کے نیچے سے نکل آیا۔‘‘[1]
حدیث مبارکہ سے معلوم ہونے والے کچھ اہم نکات
۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام بیداء یا مقام ذات الجیش میں غیر متوقع طور پر رکنا پڑا۔
۲۔ اگر آپ کی اہلیہ محترمہ کا ہار گم نہ ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں پڑاؤ نہ ڈالتے۔
۳۔ اس جگہ پانی نہیں تھا اور نہ قافلے والوں کے پاس پانی تھا۔اس لیے وہ جگہ پڑاؤ ڈالنے کے لیے قطعی مناسب نہ تھی۔آپ کو مجبوراً رکنا پڑا۔
|