نے وہاں سے پڑاؤ اٹھا دیا۔پھر اسلامی لشکر بدر کے اس چشمے پر مقیم ہوا جو دشمن سے بہت قریب تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اردگرد کے کنویں بھر دئیے گئے اور اسلامی لشکر کے لیے پانی کا عمدہ اور وافر انتظام کر لیا گیا۔یہ تقریباً آدھی رات کا وقت تھا،جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جاں نثاروں کے ساتھ وہاں پہنچے۔
حدیث مبارکہ سے معلوم ہونے والی چند اہم باتیں
۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں نہیں تھا کہ یہ جگہ جنگی نقطہ نظر سے قیام کے لیے زیادہ بہتر نہیں۔ورنہ ممکن نہیں تھا کہ آپ وہاں رکتے۔بلکہ آپ وہیں پڑاؤ ڈالتے جہاں بعد میں حضرت حباب رضی اللہ عنہ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے پڑاؤ ڈالا۔
۲۔ حضرت حباب بن منذر نے بہت عمدہ انداز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا۔
۳۔ وحی یعنی کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم کے تصورات بہت واضح تھے۔ان میں کسی قسم کا کوئی ابہام نہیں تھا۔اس لیے حضرت حباب نے سوال کے پہلے حصے میں وحی کا مقام بیان فرمایا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام وحی کے تابع ہے تو اس سے سرمو انحراف بھی ہمارے لیے جائز اور روا نہیں۔
۴۔ حضرات صحابہ کے عقیدے کے برعکس امت میں بدقسمتی سے یہ قبیح فکر اور سوچ رواج دی گئی اور عمل سے اس کا اظہار کیا گیا کہ اگر کتاب اللہ کی آیت مبارکہ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہمارے فرسودہ عقائد و اعمال کے برعکس ہو گا تو ہم کتاب و سنت کو مسترد کر دیں گے اور اپنے تقلیدی مذاہب پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔انا للّٰہ و انا الیہ راجعون۔
۵۔ وحی الٰہی سے اختلاف صریحاً کفر ہے اور کتاب و سنت کے مقابلے میں ضد اور ہٹ دھرمی کا راستہ اختیار کرنا نری تباہی ہے۔
|