آپ جب اس سے فارغ ہو جاتے تو اپنی دائیں کروٹ پر لیٹ جایا کرتے تھے حتی کہ موذن آتا تو آپ دو رکعت ادا کرتے ہلکی سی (یعنی جس میں قراء ت اور رکوع و سجود زیادہ طویل نہ ہوتے)۔‘‘ [1]
۴۔نماز وتر سونے سے پہلے ادا کی جائے یا بعد میں ؟
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
’’ اگر تم میں سے کسی کو یہ ڈر ہو کہ وہ رات کے پچھلے پہر اٹھ نہ پائے گا تو وہ (ابتدائے شب میں ہی) وتر پڑھ لے اور پھر سو جائے اور جس کو اعتماد ہو کہ وہ رات کو قیام اللیل کے لیے ضرور اٹھ جائے گا تو اسے چاہیے کہ (ابتدائے شب سو جائے اور) آخر شب میں وتر ادا کرے۔اس لیے کہ رات کے پچھلے پہر کی قراء ت میں فرشتے بھی حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے۔‘‘[2]
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ رات کی نماز میں طویل قیام کرنا افضل ہے۔
۵۔نماز وتر کے بعد دو رکعات کی فضیلت:
حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،وہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’بلاشبہ یہ سفر باعث مشقت و زحمت ہے۔اس لیے ہر کوئی وتروں کے بعد دو رکعت ادا کرلے۔اگر نیند سے بیدار ہوگئے تو بہتر ہے،وگرنہ یہی دو رکعتیں اس کے لیے کفایت کر جائیں گی۔‘‘[3]
|