میں نمازِ جنازہ ادا کی جارہی ہے۔
۷۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس عورت کی صحت و عافیت کے بارے میں بار بار دریافت کرنا بھی واضح کر رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس صحابیہ کے وقت آخر سے آگاہ نہیں تھے۔ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بار بار کیوں استفسار فرماتے۔
۸۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس عورت کے وقت آخر کا علم نہیں تھا تو اور کون ہے جو اپنی یا کسی کی موت کے وقت سے آگاہ ہو؟
۳۳۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کے وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے مشورے کرنا:
علقمہ روایت کرتے ہیں کہ:
’’....نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ رات کو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاں (مختلف امور پر) گفتگو فرمایا کرتے تھے۔اسی طرح مسلمانوں کے امور کے بارے میں گفتگو کرتے تھے۔ایسی ہی ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاں گفتگو فرما رہے تھے،اس وقت میں بھی ساتھ تھا۔اتنے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم چلتے ہوئے باہر تشریف لے گئے تو ہم بھی آپ کی معیت میں باہر نکلے۔کیا دیکھا کہ ایک شخص مسجد میں نماز پڑھ رہا ہے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوکر اس کی قراء ت سننے لگے۔پس جب ہم اس شخص کو پہچاننے کے قریب ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جس شخص کو اس بات کی خوشی ہو کہ وہ قرآن کو اس طرح ترو تازہ پڑھے جس طرح وہ نازل ہوا ہے تو وہ ابن ام عبد رضی اللہ عنہ (حضرت عبداللہ بن مسعود) کی طرح پڑھے‘‘ ....آخر حدیث تک۔‘‘ [1]
|