آتیں،وہاں اس کی رحمت کے طلب گار بن جاتے اور جہاں عذاب کی آیات تلاوت فرماتے تو اس کے عذاب سے پناہ مانگتے۔پھر جہاں اس کی تسبیح والی آیات سے گزرتے تو اس کی تسبیح بیان فرماتے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت ہندو پاک کے حفاظ کرام والی نہیں ہوتی تھی کہ صرف یعلمون تعلمون کی سمجھ آتی ہو۔باقی کیا پڑھا....؟ کچھ خبر نہیں۔
پھر یہ بھی دیکھیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ان رکعات میں رکوع کی طوالت کس قدر تھی!
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ آپ کا رکوع آپ کے قیام کی مانند ہی تھا۔مفہوم یہ کہ سو فیصد نہ سہی،قریب قریب تو ہوگا۔یہی حال آپ کے سجدے کا تھا کہ وہ بھی کم و بیش رکوع کی طرح طویل تھا۔اتنی طویل نماز....کم از کم اڑھائی تین گھنٹوں پر محیط قیام اور اگر رکوع و سجود کی طوالت شمار کرلیں تو اور زیادہ۔آخر یہ کٹھن اور جاں گسل عبادت کس لیے؟ کیوں خود کو اتنی مشقت میں ڈالا؟ یہ وہ نکتہ ہے جو مومن صادق سے کچھ توجہ مانگتا ہے۔
وہ سوچے کہ محبوب رب العالمین اپنے پروردگار کی خوشنودی کے لیے ایسی پرمشقت نماز تہجد ادا فرماتے تھے،ہمیں تو رضائے الٰہی کی اشد ضرورت ہے۔
۴۔رات کی نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت:
عبداللہ بن ابی قیس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
’’میں نے اُم المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رات کی نمازمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت کس طرح ہوتی تھی؟
آپ اونچی آواز سے قراء ت کرتے تھے یا آہستہ؟
ام المومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا : آپ دونوں انداز سے قراء ت کرتے تھے۔کبھی بالجہر یعنی اونچی آواز سے اور کبھی ہلکی آواز سے۔‘‘[1]
|