میری سواری آپ کے ساتھ جا ٹکرائی۔آپ کا پاؤں رکاب میں تھا اور میں آپ کے پاؤں سے جا لگا۔آپ کے ’’حس‘‘ کہنے کی وجہ سے میں بیدار ہو گیا۔میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ میرے لیے استغفار فرمائیے۔آپ نے فرمایا: کوئی بات نہیں۔چلتے رہو۔(یعنی آپ نے میری یہ نادانستہ خطا نظر انداز فرما دی)۔‘‘ [1]
۲۷۔تبوک میں حضرت عبداللہ ذوالبجادین رضی اللہ عنہ کی وفات:
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ:
’’میں تبوک میں آدھی رات کو بیدار ہوا تو فوجی پڑاؤ کے ایک کنارے روشنی نظر آئی۔اسے دیکھنے کے لیے آگے بڑھا تو دیکھا کہ وہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ایک میت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب کر رہے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے ہیں کہ تم دونوں اپنے بھائی کو مجھ سے قریب کرو۔دونوں حضرات نے ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انھیں لٹانا چاہا تو فرمایا:
’’اے اللہ! میں اِس سے راضی رہا ہوں،تو بھی اس سے راضی ہو جا۔‘‘
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :
’’میں نے دل میں سوچا،کاش میں اس (قبر) میں دفن ہوا ہوتا۔‘‘ [2]
۲۸۔تبوک میں رات کے وقت تیز آندھی:
مولانا صفی الرحمن لکھتے ہیں :
’’راستے ہی میں یا تبوک پہنچ کر ....روایات میں جزوی سا اختلاف ہے....
|