حدیث مبارکہ سے معلوم ہونے والی کچھ باتیں
۱۔ ام سلیم رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خالہ تھیں،اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محرم تھیں۔آپ جب ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کھال کا بچھونا بچھاتیں۔
۲۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ بہت آتا تھا اور اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ خوشبو دار بنایا ہوا تھا۔یہ حضرت آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اعجازات میں سے ہے۔
۳۔ مزید اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پسینہ اس کثرت سے آنا نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کے بشری اوصاف میں سے تھا۔اگر آپ نور من نور اللّٰہ یعنی اللہ تعالیٰ کے نور میں سے نور ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح پسینہ نہ آتا۔اس لیے کہ نور کو پسینہ کیوں آئے؟ یہ تو بشری خصائص ہیں۔
۴۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا گھبرا کے اٹھ جانا بھی ظاہر کر رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہیں تھا کہ آپ کی خالہ آپ کے سونے کے دوران آپ کے جسد اطہر سے پسینہ پونچھ رہی تھیں۔ورنہ آپ بھلا کیوں گھبرا کے اٹھتے؟
۵۔ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے برکت حاصل کیا کرتے تھے۔مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال پانی میں بھگو کر اس پانی کو استعمال میں لانا او ر اس سے شفا کا حاصل کرنا۔درج بالا حدیث مبارکہ کے مطابق آپ کے پسینہ مبارک سے برکت حاصل کرنا،اس طرح ایک صحابی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کرتے کو اپنا کفن بنانا وغیرہ۔یہ احادیث حضراتِ صحابہ کے عقیدے کو واضح کر رہی ہیں اور ان کی پیروی میں ہمارا بھی عقیدہ اور ایمان ہے کہ آثار نبوی سے برکت حاصل کی جا سکتی ہے۔لیکن اب ان آثار کی موجودگی حتمی نہیں کہی جا سکتی۔مختلف ممالک میں بعض اشیاء
|