اسے بلاتاخیر کیا جائے۔لیکن ام المومنین رضی اللہ عنہا کے اس جواب سے واضح معلوم ہو گیا کہ یہ ہر انسان کی ذاتی پسند ناپسند کا مسئلہ ہے۔اگرچہ بہتر ہے کہ جلدی غسل کیا جائے۔تاہم اگر کوئی غسل کیے بغیر سونا چاہتا ہے تو وہ سونے سے پہلے وضو کر لے۔
۵۔اگر کسی کو غسل کی حاجت ہو تو وہ سو سکتا ہے؟
اگر کسی کو فرض غسل کی ضرورت پیش آجائے اور وہ غسل کیے بغیر سونا چاہ رہا ہو تو وہ ایسا کرسکتا ہے البتہ اسے چاہیے کہ سونے سے پہلے وضو کرلے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت فرمایا کیا ہم میں سے کوئی حالت جنابت میں سو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہاں ! وضو کرکے ایسی حالت میں بھی سو سکتے ہو۔‘‘ [1]
۶۔مسجد میں سونا:
بوقت ضرورت مسجد میں سویا جاسکتا ہے،شریعت محمدیہ میں اس کی ممانعت نہیں۔البتہ بعض حالات میں یہ ایک انتظامی مسئلہ بن جاتا ہے۔رات کے وقت مساجد کو عموماً تالا لگانا پڑتا ہے۔کچھ مساجد میں خادم بھی نہیں ہوتا جو مسجد میں رہتا ہو اور مسجد کے ساز و سامان کی حفاظت کرسکے۔اس لیے مساجد کی انتظامیہ کے قواعد و ضوابط کا خیال کرنا چاہیے۔ورنہ بے مقصد اختلاف اور جھگڑے کا امکان ہوتا ہے۔بعض مسائل محض جواز کا درجہ رکھتے ہیں نہ کہ حکم کا۔یہ سمجھنے والی بات ہے۔اب ملاحظہ فرمایے مسجد میں سونے کے بارے میں دلیل۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے نافع کو بتایا کہ وہ اپنی نوجوانی میں،کہ ابھی ان کی شادی نہیں ہوئی تھی اور وہ بیوی بچوں سے آزاد تھے،تو مسجد النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں سویا کرتے تھے۔[2]
|