والے واقعے سے بے خبر تھے مگر ہمارے پیر اور مرشد سوتے ہوئے بھی اپنے مریدوں کی نہ صرف پکار سنتے ہیں بلکہ ان کی مدد کو آتے ہیں۔بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ خود ہی سوچئے!
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ....میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان....آپ تو اپنے وجود کے ایک حصے یعنی اپنی اہلیہ سے پیش آنے والے واقعے سے نہ صرف بے خبر رہے بلکہ اس کا مداوا بھی ....مشیت الٰہی کے تحت ....نہ فرما سکے اور یہ لوگ اپنے مریدوں کی ہر مشکل حتی کہ روزِ آخرت میں بھی دستگیری کریں ....؟ اللہ رب العزت کی قسم! ایسا ممکن ہی نہیں۔
۱۲۔نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بے قراری اور پھر اطمینان سے سو جانا:
ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ
’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ طیبہ ہجرت کے بعد کی بات ہے۔ایک رات آپ نے جاگنے میں گزاری۔آپ فرمانے لگے کاش میرے ساتھیوں میں سے کوئی نیک بخت ایسا ہوتا کہ رات بھر پہرہ دیتا۔ابھی آپ یہ بات کر رہے تھے کہ اس دوران ہتھیاروں کی جھنکار سنائی دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون ہے؟ آواز آئی کہ میں سعد بن ابی وقاص ہوں اور در اقدس کی چوکیداری کے لیے آیا ہوں۔نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سنا تو بہت خوش ہوئے۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے لیے دعا فرمائی اور اطمینان سے سوگئے۔[1]
سبحان اللہ! کیا خوش نصیب لوگ تھے کہ جن کے لیے لسان رسالت و نبوت علیہ الصلوٰۃ والسلام سے براہ راست دعائیں نکلتی تھیں،جنھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی چوکیداری کی سعادت حاصل ہوئی۔خود ہی سوچئے! بھلا اس سے بڑھ کر بھی کوئی اعزاز ہو سکتا ہے؟
|