ڈاکٹر لقمان سلفی لکھتے ہیں :
’’صبح کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ شروع کی۔ابتداء میں ہوازن کے پیش قدمی کرنے والے مقاتلین مسلمانوں کے حملہ کی تاب نہ لاکر پیچھے ہٹے،جس کے بعد اسلامی فوج کے افراد اموالِ غنیمت جمع کرنے لگے،انہیں گمان ہواکہ ہوازن شکست کھا کر بھاگ پڑے ہیں،اب واپس نہیں آئیں گے۔لیکن دشمنوں نے وادی کی گھاٹیوں اور تنگنائیوں میں مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لیے فوجی دستے چھپا رکھے تھے،اُن دستوں نے مسلمانوں پر یکبارگی حملہ کر دیا،اور پھر فجر سے عشاء تک بلکہ ساری رات جنگ ہوتی رہی۔‘‘[1]
۲۶۔سفر تبوک میں رات کے وقت ایک سوار نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آ ٹکرایا:
حضرت ابو رہم رضی اللہ عنہ ان عالی قدر اصحاب میں سے تھے جنہوں نے درخت کے نیچے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی۔وہ بیان کرتے ہیں کہ
’’میں غزوہ تبوک میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھا۔ایک رات اخضر (پہاڑ) کے پاس میں نے قیام کیا۔میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہو گیا۔ہم پر اونگھ چھا گئی۔میں جاگنے کی کوشش کرتا رہا اور میری سواری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے قریب ہو گئی۔مجھے سواری کے قریب ہونے نے خوف میں ڈال دیا۔خوف اس بات کا کہ کہیں میری سواری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سے نہ ٹکڑا جائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک کو رکاب میں تکلیف پہنچا دے۔میں اپنی سواری کو پیچھے ہٹاتا رہا۔یہاں تک کہ رات دوران سفر سواری پر ہی کسی وقت میری آنکھ لگ گئی اور وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔
|