پڑھی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو پیغام بھیجا تو انہوں نے اپنے اونٹوں کو اپنی قیام گاہوں میں بٹھایا۔لیکن انہوں نے سامان نہیں اتارا حتیٰ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز پڑھائی۔پھر لوگوں نے اپنا سامان اتارا اور اپنی قیام گاہوں کا رخ کیا۔جب صبح ہوئی تو میں قریش کے جلد چلے جانے والوں میں پیدل چل پڑا اور حضرت فضل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھ گئے۔‘‘[1]
۳۶۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو محصب والی رات تنعیم احرام کے لیے بھیجنا:
ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ
’’حجۃ الوداع کے موقع پر مدینہ طیبہ سے روانگی کے وقت ہم نے صرف حج کی نیت کی تھی۔جب ہم مکہ مکرمہ پہنچے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ جو اپنی قربانی ساتھ نہیں لایا،وہ حلال ہو جائے۔چنانچہ جو لوگ اپنی قربانیاں لے کر نہیں آئے تھے،وہ حلال ہو گئے۔[2] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی قربانیاں ہمراہ نہیں لائی تھیں،اس لیے وہ بھی حالت احرام سے نکل آئیں۔‘‘
ام المؤمنین نے فرمایا:
’’میں اپنے شرعی عذر کے سبب بیت اللہ الحرام کا طواف نہیں کر سکتی تھی۔پھر جب محصب والی رات آئی تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! لوگ تو عمرہ اور حج کر کے واپس جائیں گے اور میں صرف حج کر کے؟
|