۵۴۔اہل بقیع کے لیے دعائے مغفرت کا حکم:
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ
’’ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے،اپنے کپڑے پہنے اور پھر نکل گئے۔میں نے اپنی لونڈی بریرہ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ وہ آپ کے پیچھے جائے۔اس نے آپ کا پیچھا کیا حتیٰ کہ آپ بقیع میں پہنچ گئے اور اس کے ابتدائی حصے میں کھڑے (دعا کرتے) رہے۔جب تک اللہ تعالیٰ نے چاہا۔پھر واپس چل پڑے۔بریرہ آپ سے پہلے پہنچ گئی اور مجھے سب کچھ بتا دیا۔میں نے آپ سے کچھ نہ کہا حتیٰ کہ جب صبح ہوئی تو پھر میں نے اس بات کا تذکرہ آپ سے کیا۔آپ نے فرمایا:
’’مجھے کہا گیا تھا کہ میں بقیع میں مدفون لوگوں کے لیے دعا کروں۔‘‘[1]
۵۵۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی باری والی رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بقیع جانا:
ام المومنین سلام اللہ علیہا فرماتی ہیں کہ
’’جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے میری باری والی رات ہوتی تو آپ رات کے آخری حصے میں بقیع تشریف لے جاتے اور یوں فرماتے:
(( السلام علیکم دار قوم مومنین،و انا و ایاکم متواعدون غداً و متواکلون،و إنا ان شاء اللّٰہ بکم لاحقون،اللّٰہم! اغفر لاہل بقیع الغرقد۔))
’’اے مومنین قبرستان! تم پر سلامتی ہو۔ہم اور تم کل کو وقت مقررہ پر اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش ہونے والے ہیں اور یقیناً جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو ہم بھی تم سے ملنے والے ہیں۔اے اللہ! بقیع الغرقد میں مدفون مسلمانوں کی
|