Maktaba Wahhabi

325 - 391
۴۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف میں سے ایک امتیازی وصف امت کے لیے آپ کا رؤف و رحیم ہونا بھی ہے۔اس لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ آپ اپنی خوشی سے اپنے اصحاب کو اس مشقت میں ڈالتے۔ ۵۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے ہار کی تلاش کی لیکن بے سود۔تمام تر کوشش کے باوجود ہار نہ ملا۔ ۶۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس بات سے مکمل طور پر بے خبر تھے کہ سیّدہ کا گم شدہ ہار کہاں ہے۔اگر آپ کو علم ہوتا تو آپ اس ویران اور پانی سے محروم جگہ پر رکنے کی بجائے صحابہ کو دو لفظوں میں ہی بتا دیتے کہ ہار فلاں جگہ ہے۔اٹھاؤ اور چلتے رہو۔ ۷۔ کیسے ممکن تھا کہ گم شدہ ہار کا علم ہونے کے باوجود آپ اور آپ کے صحابہ اسے تلاش کرتے رہتے؟ ۸۔ سیّدہ کا اونٹ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میلوں فاصلے پر نہیں بلکہ چند قدموں کے فاصلے پر تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کی خبر نہیں تھی کہ گم شدہ ہار اس اونٹ کے نیچے ہے۔ ۹۔ واقعہ معراج پر مشرکین مکہ کے شکوک و شبہات اوراعتراضات پر اللہ رب العزت نے حجاب دور فرما دئیے اور ہزاروں میل دور مسجد اقصیٰ کے درو دیوار آپ کے سامنے آگئے اور آپ صحن حرم میں مشرکین مکہ کو بتا رہے تھے کہ بیت المقدس کا اس طرح کا نقشہ ہے۔اس کے در و دیوار کا یہ رنگ اور یہ ساخت ہے۔اس کی محرابیں اس انداز کی ہیں وغیرہ۔لیکن یہاں اپنے قدموں میں اونٹ کے نیچے گم شدہ ہار پڑا ہوا تھا مگر ہمارے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں نہیں تھا۔ ۱۰۔ واضح اور صاف بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے جس بات کی خبر دی آپ نے بتا دی اور جس بات کی اللہ رب العزت نے اپنے
Flag Counter