Maktaba Wahhabi

289 - 391
ہوسکتا ہے؟ کبھی آپ نے سوچا؟ میرے آقا کے اشاروں پر تو جنت کے دروازے کھلنے ہیں۔پھر آخر حضرت رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی راتوں کی بے قراری کا سبب کیا تھا؟ اس طالب علم نے جو نتیجہ نکالا،وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے لیے متفکر تھے ورنہ شکر گزاری تو آپ کے رؤیں رؤیں میں تھی۔آپ ایسا شکر گزار انسان تو اس کائنات میں کوئی آیا ہی نہیں۔قرآن کریم میں رب العزت نے واضح الفاظ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس رنج و غم پر آپ کو تسلی دی ہے کہ آپ کیوں لوگوں کے غم میں خود کو ہلکان کر رہے ہیں ؟ فرمایا: ﴿لَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ اَلَّا یَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْن﴾ (الشعراء: ۳) ’’ان کے ایمان نہ لانے پر شاید تو اپنی جان کھو دے گا۔‘‘ آیئے! ذرا اس جود و کرم والی رات کا قصہ سنیں،جب ہمارے مہربان پروردگار نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہم گناہگاروں کے متعلق ایک پیش کش فرمائی اور سرور کون و مکاں صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے کس درجہ محبت کا مظاہرہ فرمایا۔ حضرت عوف بن مالک الاشجعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ آج رات میرے رب نے مجھے کس بات کا اختیار دیا؟ ہم نے عرض کیا یہ تو محب اور محبوب کے مابین راز و نیاز کی بات ہے۔بھلا ہمیں اس کی کیا خبر؟ یہ تو آپ اور آپ کا پروردگار ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آج رات اللہ رب العزت نے مجھے دو باتوں میں سے ایک کے انتخاب کا اختیار دیا: ۱۔ میری آدھی امت جنت میں داخل ہو جائے گی۔ ۲۔ یا پھر میں اپنی امت کی شفاعت کروں۔
Flag Counter