عبدالمطلب اگر کسی کی زد میں آجائے تو وہ اسے قتل نہ کرے کیونکہ وہ جبراً لائے گئے ہیں۔‘‘[1]
جنگ کے بعد حضرت عباس قید ہو کر مسلمانوں کے قبضے میں آ گئے۔تو ایک انصاری نے انہیں قتل کی دھمکی دی۔امام ابن کثیر لکھتے ہیں :
’’مستدرک میں امام حاکم نے اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بیان کیا کہ اسیران بدر میں عباس بھی تھے۔ان کو ایک انصاری نے گرفتار کیا تھا اور انصار نے عباس کو قتل کی دھمکی دی تھی۔جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں آج شب چچا عباس کی وجہ سے سو نہیں سکا کہ انصار کا خیال تھا کہ وہ اس کو تہ تیغ کر دیں گے۔یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں ان کے پاس جاؤں ؟ آپ نے ’’ہاں ‘‘ کہا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ انصار کے پاس آئے اور ان سے کہا عباس کو چھوڑ دو۔انہوں نے کہا و اللہ! ہم اس کو نہ چھوڑیں گے۔یہ سن کر عمر نے ان کو کہا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ خواہش ہو تو؟ پھر انہوں نے کہا اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ رضا ہے تو آپ ان کو لے جائیے۔چنانچہ حضرت عمر نے ان کو اپنے قبضہ میں کر لیا اور کہا جناب عباس! اسلام قبول کر لیجیے! و اللہ! آپ کا اسلام قبول کرنا میرے لیے اپنے والد خطاب کے اسلام قبول کرنے سے زیادہ محبوب ہے۔اس وجہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کا مسلمان ہونا پسند ہے.....‘‘
امام حاکم نے مستدرک میں کہا ہے یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔[2]
|