نہیں چھوڑے گا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل علیہ السلام کی قیادت میں فرشتوں کے لشکر کی آمد اور مشرکین کی ہزیمت کی خوشخبری سنائی۔
حدیث مبارکہ سے معلوم ہونے والی کچھ باتیں
یہاں لمحے بھر کے لیے رکیے اور اس حدیث مبارکہ پر غور کیجیے!
۱۔ اگر حضرت آقا علیہ السلام کو علم غیب ہوتا....جیسا کہ پاک و ہند میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ادب و احترام کا پیمانہ ہی ان مسائل کو بنا لیا گیا ہے....تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا ضرورت تھی کہ ساری رات بارگاہ الٰہ العالمین میں روتے ہوئے،مدد طلب کرتے،دعائیں کرتے اور نماز پڑھتے گذار دی؟ پھر تو آپ آرام فرماتے کہ صبح دم فرشتوں کی فوج مدد کے لیے آرہی ہے یا آپ شکرانے کے نوافل ادا فرماتے۔کیا ضرورت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر گریہ زاری کی؟
۲۔ اگر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کا علم ہوتا تو آپ کو تو پہلے سے ہی اس معرکے کا انجام معلوم ہونا چاہیے تھا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہنے کی کیا ضرورت تھی کہ اے اللہ! اگر آپ نے مدد نہ فرمائی تو آپ کی عبادت کرنے والا کوئی نہیں رہے گا۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عقیدہ علم غیب رکھنے کا بدیہی مطلب ہے کہ آپ کو پہلے سے ہی معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ کی مدد آئے گی۔جبرائیل علیہ السلام کی قیادت میں فرشتوں کا نورانی لشکر نازل ہو گا۔جب آپ کو پہلے سے ہی سب کچھ معلوم تھا تو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس طرح رات بھر مناجات کا کیا مطلب ہوا؟
۳۔ کتب سیرت میں غزوۂ بدر کا پس منظر پڑھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے میدان میں کافروں کے ساتھ لڑائی کے ارادے سے تو گئے ہی نہیں تھے۔آپ تو قریش کے تجارتی قافلے کا راستہ روکنا چاہتے تھے۔انہیں
|