Maktaba Wahhabi

312 - 391
حسین رضی اللہ عنہما نے خون دے کر اسلام کو تباہ ہونے سے بچایا۔ان کا یہ صدیوں سے وتیرہ ہے کہ اتنا شور مچاؤ کہ سچ جھوٹ کی گرد میں چھپ جائے۔ بلاشبہ سیّدنا حسین رضی اللہ عنہ اہل بیت رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور آل علی رضی اللہ عنہ کی شہادت تاریخ اسلام کے ناقابل فراموش سانحات میں سے ہے لیکن سانحہ کربلاء کی تمام تر سنگینی اور الم ناکی کے باوجود جن نزاکتوں کا بدر کے موقع پر دین اسلام کو سامنا تھا،کسی اور موقع پر ایسا نہ تھا۔ میدان بدر میں تو اسلام کی بقاء کی جنگ لڑی گئی تھی۔جبکہ کربلاء میں اہل کوفہ نے اپنی گھناؤنی اور ناپاک سازشوں کے بے نقاب ہونے کے خوف سے اہل بیت اور ان کے جانثاروں کے خون ناحق سے اپنے ہاتھ رنگے اور وہ ظلم ڈھایا کہ تاریخ اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔لیکن اسلام بہرحال محفوظ ہی تھا۔بنی اُمیہ کے سنہری دورِ حکومت میں اسلامی مملکت کی سرحدیں جہاں تک وسیع ہوئیں،بعد میں آنے والے بادشاہ نماخلفاء اس میں بہر حال کوئی اضافہ نہ کر سکے۔معذرت کا خواستگار ہوں کہ بات کچھ طویل ہوگئی اور بات بھی میرے موضوع سے قدرے ہٹ کر تھی۔اس قصے کو یہیں تمام کرتے ہیں اور اپنے موضوع کی طرف لوٹتے ہیں۔[1] یہ بدر کا میدان ہے۔مسلمان اور مشرکین آمنے سامنے صف آراء ہیں۔رات کا وقت ہے اور صبح دین اسلام کی بقاء کا معرکہ ہے۔نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی تمام تر کمائی کے ہمراہ میدانِ کار زار میں آچکے ہیں۔فریقین آرام کر رہے ہیں۔صحرا میں چہار سو سناٹا ہے اور بارش ہو رہی ہے۔ایسے عالم میں مسلمانوں کے قائد،سالار اور جرنیل اعظم صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کے نیچے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مصروفیت کیا ہے؟ یہ امیر المؤمنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی زبان مبارک سے سنیے! وہ بیان کرتے ہیں :
Flag Counter