تھی کہ آپ رات کی تاریکی میں قبائل کے پاس تشریف لے جاتے تاکہ مکے کا کوئی مشرک رکاوٹ نہ ڈال سکے۔
اسی حکمت عملی کے مطابق ایک رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہمراہ لے کر باہر نکلے۔بنو ذہل اور بنو شیبان بن ثعلبہ کے ڈیروں سے گزرے تو ان سے اسلام کے بارے میں بات چیت کی۔انہوں نے جواب تو بڑا امید افزا دیا لیکن اسلام قبول کرنے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہ کیا۔
اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ کی گھاٹی سے گزرے تو کچھ لوگوں کو باہم گفتگو کرتے سنا۔آپ نے سیدھے ان کا رخ کیا اور ان کے پاس جا پہنچے۔یہ یثرب کے چھ جوان تھے اور سب کے سب قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے پاس پہنچ کر دریافت کیا کہ آپ کون لوگ ہیں ؟ انہوں نے کہا ہم قبیلہ خزرج سے تعلق رکھتے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یعنی یہود کے حلیف؟‘‘ بولے ہاں۔فرمایا: ’’پھر کیوں نہ آپ حضرات بیٹھیں،کچھ بات چیت کی جائے۔‘‘ وہ لوگ بیٹھ گئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اسلام کی دعوت دی۔اسلام کی حقانیت سے آگاہ فرمایا۔قرآن کی تلاوت فرمائی تو کہنے لگے یہ تو وہی نبی معلوم ہوتے ہیں،جن کا حوالہ دے کر یہود تمہیں دھمکیاں دیا کرتے ہیں ؟ لہٰذا یہود تم پر سبقت نہ لے جائیں۔اس کے بعد انہوں نے فوراً آپ کی دعوت قبول کر لی اور مسلمان ہو گئے۔‘‘[1]
|