Maktaba Wahhabi

341 - 391
اگر پھر بھی کسی کو اصرار ہو کہ ’’ جو اللہ چاہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں،وہی ہو گا‘‘ تو مندرجہ بالا فرمانِ نبوی کہ جس میں شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کہنے کو شرک قرار دیا،کیا یہ اس کا انکار نہیں ہو گا؟ یہ عقیدت یا جذبات کا مسئلہ نہیں بلکہ سیّد الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فرمانِ عالی شان کی قبولیت کا مرحلہ ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارا یہ کیسا ’’عشق ‘‘ ہے کہ جو خوش نصیب آپ کے فرمانِ عالی شان کو اپنی آنکھوں کا نور اور دل کا قرار بنا رہے ہیں،انہیں بد عقیدہ اور گستاخِ رسول کے بے ہودہ القاب دیے جاتے ہیں۔ اس حدیث مبارکہ سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت پر بھی دلائل ملتے ہیں : ۸۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھکاوٹ سے چور ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بشری اوصاف میں سے ہے۔ ۹۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اتنی گہری نیند سونا کہ نماز کے لیے بھی بیدار نہ ہوسکے،آپ کے بشر ہونے کی دلیل تھی۔ ۱۰۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو نیند سے بیدار کرنے پر متعین کرنا،حضرتِ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کی علامت تھی۔ ۱۱۔ یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب نہ ہونے کی صاف اور واضح دلیل ہے۔اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ کو شیاطین کا مستقر قرار دیا۔اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہلے سے ہی علم ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ایسی بری جگہ پڑاؤ کے لیے منتخب نہ فرماتے۔یہ بات بھی یاد رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں اکیلے قیام نہیں کرنا تھا بلکہ آپ کے ہمراہ آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم بھی تھے کہ جن کی ذمہ داری آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھوں پر تھی۔اور آپ سے بڑھ کر صادق اور امین تو کوئی نہ تھا۔آپ سے زیادہ تو اس کائنات میں کوئی روؤف و رحیم نبی مبعوث ہی نہیں ہوئے کہ جنہیں
Flag Counter