Maktaba Wahhabi

339 - 391
واقعات ہیں۔پہلے قصے میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو رہے تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کے سرہانے اللہ اکبر کہا تاکہ آپ بیدار ہو جائیں۔دوسرے قصے میں ہے کہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے اور پھر آپ نے دیگر افراد کو اٹھایا۔ان دونوں واقعات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز فجر قضا ہوئی۔ ۲۔ لازمی بات ہے کہ یہ واقعہ ایک جہت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک حادثے کی حیثیت رکھتا تھا۔اس لیے کہ آپ سے زیادہ کون نمازوں کی حفاظت کرنے والا ہو سکتا تھا ....اور آپ سے بڑھ کر کون نماز کی اہمیت و فرضیت سے آگاہ تھا۔ ۳۔ جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سفر کی تکان سے چور ہوکر لیٹنے لگے تھے تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نیند سے بیدار کرنے پر مامور کرنا ہی ظاہر کرتا ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خود پر یہ یقینی اور قطعی اختیار نہ تھا کہ آپ اپنی مرضی سے نماز کے وقت بیدار ہو جائیں گے۔ ۴۔ بلکہ آپ کو تو علم ہی نہ تھا کہ آپ سوتے رہ جائیں گے اور آپ کی ہی نہیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جاں نثاروں کی نماز فجر بھی قضا ہو جائے گی۔ ۵۔ اگر آپ کو یہ علم ہوتاکہ آپ پر نیند غالب آجائے گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی نہ سوتے بلکہ بیداررہتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھکاوٹ کے ہاتھوں بے حال ہوکر محو استراحت ہونا ہی اس بات کو ظاہر کر رہا ہے کہ آپ کو خبر نہ تھی کہ چند گھنٹے بعد نماز فجر کے وقت آپ بیدار نہ ہوسکیں گے۔ ۶۔ بھلا یہ ممکن تھا کہ (نعوذ باللہ ثم نعوذ باللہ) آپ دانستہ ایک ایسا کام کرتے،جس کا نتیجہ آپ کی نماز کے ضائع ہونے کی شکل میں ظاہر ہونے والا تھا؟ حاشاً وکلاً ایسا ہونا ممکن ہی نہیں تھا۔بلکہ ایسا سوچنا بھی اپنی بربادی اور اللہ تعالیٰ کے عذاب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔اصل بات یہ ہے کہ ارادۂ نبوی پر تقدیر الٰہی
Flag Counter