Maktaba Wahhabi

364 - 391
چاہت اور خواہش اللہ تعالیٰ کی تقدیر پر غالب نہ آسکی۔یہ صرف اللہ رب العالمین کی صفت ہے کہ جن کی مشئیت سے سب کچھ ہوتا ہے۔جن کی مشئیت ہی تقدیر ہے اور وہ تنہا ’’ علی کل شیئٍ قدیر‘‘ ہیں۔ ۴۔ بظاہر یہ ایک عام سا واقعہ ہے لیکن اس پر غور کرنے سے عقیدے کی درستگی کے کتنے ہی امکانات واضح ہو رہے ہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کی یہ بین دلیل ہے۔آپ اگر ’’نور مجسم‘‘ ہوتے یا ’’نور من نور اللہ‘‘ ہوتے تو کیا ایک بشر (یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ رضی اللہ عنہا ) آپ کی کوشش کے باوجود بیدار رہتیں ؟ ایسا ممکن ہی نہ ہوتا۔اس لیے کہ یہ ایک بشر کی ’’نور من نور اللہ‘‘ پر فوقیت کی دلیل ہوتی جو کہ محال ہے۔ ۵۔ اس قصے سے ہمیں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیارات کے بارے میں بھی آگاہی ہوتی ہے۔آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام انبیاء و رسل کے سردار تھے۔سید ولد آدم تھے۔محبوب رب العالمین تھے لیکن ....اس ’’لیکن‘‘ کے بعد اللہ رب العزت کے مختار کل ہونے کی شہادت دینی پڑے گی۔اس لیے کہ یہ شہادت اخروی نجات کے لیے لازمی ہے۔اور جس نے اس مقام عالی شان کی تفہیم میں ٹھوکر کھائی،وہ بد نصیب خائب و خاسر ٹھہرا کہ اس نے مقام نبوت کی معرفت بھی حاصل نہ کی اور توحید الٰہ العالمین کے تقاضوں سے بھی بے خبر رہا۔اللہم لا تجعلنا منہم۔ ۶۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا کے گہری نیند میں جانے کا نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے انتظار کیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یقین ہوگیا کہ میری اہلیہ محترمہ سو چکی ہیں تو آپ بستر سے بے حد آہستگی سے اٹھ گئے۔مگر سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس وقت بیدار تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اہلیہ کی کیفیت کے متعلق بے خبر تھے۔یاد رہے کہ ام المومنین سلام اللہ علیہا کسی دوسرے کمرے میں نہیں تھیں بلکہ اسی حجرے میں،اسی بستر پر نبی
Flag Counter