لے گئیں،جو ان کے چچا زاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے کاتب تھے،چنانچہ انجیل کو بھی حسب منشائے خداوندی عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔(انجیل سریانی زبان میں نازل ہوئی تھی،پھر اس کا ترجمہ عبرانی زبان میں ہوا۔ورقہ اسی کو لکھتے تھے) وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی رخصت ہو چکی تھی۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ان کے سامنے آپ کے حالات بیان کئے اور کہا کہ اے چچا زاد بھائی! اپنے بھتیجے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی زبانی ذرا ان کی کیفیت سن لیجئے۔وہ بولے کہ بھتیجے آپ نے جو کچھ دیکھا ہے،اس کی تفصیل سناؤ۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے از اول تا آخر پورا واقعہ سنایا،جسے سن کر ورقہ بے اختیار ہو کر بول اٹھے کہ یہ تو وہی ناموس (معزز راز دان فرشتہ) ہے جسے اللہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی دے کر بھیجا تھا۔کاش! میں آپ کے اس عہد نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا۔کاش! میں اس وقت تک زندہ رہتا جب کہ آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ (حالانکہ میں تو ان میں صادق و امین و مقبول ہوں ) ورقہ بولا ہاں یہ سب کچھ سچ ہے۔مگر جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو گئے ہیں۔اگر مجھے آپ کی نبوت کا وہ زمانہ مل جائے تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا مگر ورقہ کچھ دنوں کے بعد انتقال کر گئے۔پھر کچھ عرصہ تک وحی کی آمد موقوف رہی۔‘‘
صحیح بخاری کی مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کے آغاز میں نزولِ وحی کی ابتداء کا بیان
|