وہاں سیل رواں جاری ہوگیا۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا غار والا قصہ مشہور ہے۔یہ سب آپ کے معجزے تھے۔ہمارا اس پر ایمان ہے۔لیکن اگر آپ کا لعاب مبارک مستقل بالذات شفا ہوتا تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچھو نے کاٹا،آپ نے اپنے زخم پر لعاب لگانے کی بجائے نمک اور پانی سے کیوں علاج فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ نمک اور پانی لے کر آئیں،اس سے کہیں آسان بات یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا لعاب مبارک بچھو کے کاٹے پر لگا دیتے۔اس کے لیے کسی تردد یا تکلف کی ضرورت نہیں تھی۔
پھر لعاب مبارک لگانے کی بجائے نمک اور پانی منگوانے کا کیا مطلب ہوا؟ مطلب یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا آپ کے لعاب مبارک میں شفاء کا عنصر داخل ہوگیا اور جب اللہ رب العزت کا اذن نہ ہوا،آپ کے لعاب میں تمام تر برکتوں کے باوجود شفاء شامل نہ ہوئی۔جیسے کہ حضرت سعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس وقت کے رائج طریقہ علاج کے مطابق داغ دیا۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داغ دینے کے باوجود وہ جانبر نہ ہوسکے اور وفات پاگئے۔[1] دوسری
|