سے اسی طرح باتیں بھی کرتے رہے (کہ آپ کا کپڑا کچھ ہٹا ہوا تھا) پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے اور انہوں نے آنے کی اجازت طلب کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اجازت مرحمت فرمائی اور ان سے بھی باتیں کرتے رہے۔اس دوران حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی تشریف لے آئے۔انہوں نے بھی آنے کی اجازت طلب کی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آمد کا سنا تو اٹھ کر بیٹھ گئے۔اپنے کپڑے درست کیے۔پھر وہ آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کرتے رہے۔جب وہ واپس چلے گئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے والد ابوبکر رضی اللہ عنہ آئے،آپ اسی حالت میں رہے،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے،آپ اسی طرح لیٹے رہے،پھر عثمان رضی اللہ عنہ آئے تو آپ نہ صرف اٹھ کر بیٹھ گئے بلکہ اپنے کپڑے بھی درست کیے....؟
اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ألا استحیی من رجل تستحیی منہ الملائکۃ ))
’’ کیا میں اس شخص کی حیا نہ کروں کہ فرشتے بھی جس سے حیا کرتے ہیں ؟‘‘[1]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالی شان پر میں دل و جان سے قربان! حضرت آقا علیہ السلام نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حیا فرمائی۔فرشتوں نے بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حیا کا پاس و لحاظ رکھا۔اس کے باوجود جو سیاہ رو سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے بارے میں اپنی آبرو باختہ اور بے حیا زبانیں دراز کرتے ہیں،ان سے بڑھ کر کون شرم و حیا سے عاری ہو گا؟ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کہ آسمان کے ملائکہ نے جن کی حیا کی،محبوب رب العالمین،
|