حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ ہمارا سفر جاری تھا۔چلتے چلتے نصف شب بیت گئی۔میں حضرت نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں اپنی سواری پر تھا۔اچانک میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی سواری پر اونگھ رہے ہیں اور ایک طرف کو جھکے جا رہے ہیں۔میں نے قریب ہوکر بصد ادب و احترام آپ کو سہارا دیا اور سواری پر آپ کی کمر سیدھی کر دی۔اتنی احتیاط سے کہ آپ کے آرام میں خلل نہ آئے۔
اللہ اکبر!
میرے ماں باپ اس رحمت والے نبی اور ان کے اصحاب پر قربان۔اصحاب رسول کی عظمت و رأفت کا کیا کہنا کہ انہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی سعادت حاصل تھی۔
حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہلکا سا سہارا دیا اور آپ اپنی سواری پر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔سفر اسی طرح جاری تھا۔کچھ دیر بعد پھر میری نگاہ پڑی۔کیا دیکھتا ہوں کہ آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک بار پھر نیند کے غلبے سے اپنی سواری پر ایک طرف کو جھکے جا رہے ہیں۔میں فوراً آگے ہوا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند کا خیال کرتے ہوئے آپ کو سہارا دیا تو آپ دوبارہ اپنی سواری پر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔پھر کافی رات بیت گئی۔سحر کا وقت قریب تھا۔میری نگاہوں کا مرکز آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی ذات بابرکات تھی۔
ایک بار پھر آپ اپنی سواری پر سوتے سوتے ایک طرف جھک گئے اور اس بار آپ کا جھکنا پہلی دونوں مرتبہ کی نسبت زیادہ تھا۔اتنا زیادہ کہ مجھے اندیشہ ہوا،آپ سواری سے نیچے ہی گر پڑیں گے۔میں جلدی سے آگے بڑھا اور آپ کو گرنے سے روک دیا۔اس مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون ہے؟
میں نے عرض کی آپ کا خادم ابو قتادہ۔
فرمایا: کب سے میرے پہلو بہ پہلو چل رہے ہو؟
|