آواز پہچان لی ....میں نے کہا و اللہ اگر (مسلمان) تمہیں پا گئے تو تمہاری گردن مار دیں گے۔لہٰذا اس خچر پر پیچھے بیٹھ جاؤ۔میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے چلتا ہوں اور تمہارے لیے امان طلب کیے دیتا ہوں۔اس کے بعد ابوسفیان میرے پیچھے بیٹھ گیا اور اس کے دونوں ساتھی واپس چلے گئے۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں ابوسفیان کو لے کر چلا۔جب کسی الاؤ کے پاس سے گزرتا تو لوگ کہتے کون ہے؟ مگر جب دیکھتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خچر ہے اور میں اس پر سوار ہوں تو کہتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا ہیں اور آپ کے خچر پر ہیں۔یہاں تک کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے الاؤ کے پاس سے گزرا۔انہوں نے کہا کون ہے اور اٹھ کر میری طرف آئے۔جب پیچھے ابوسفیان کو دیکھا تو کہنے لگے ابو سفیان؟ اللہ کا دشمن؟ اللہ کے لیے ہی حمد ہے کہ اس نے بغیر عہد و پیمان کے تجھے ہمارے قابو میں کر دیا۔اس کے بعد وہ نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے اور میں نے بھی خچر کو ایڑ لگائی۔میں آگے بڑھ گیا اور خچر سے کود کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا گھسا۔اتنے میں عمر بن خطاب بھی گھس آئے اور بولے کہ اے اللہ کے رسول! یہ ابوسفیان ہے۔مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس کی گردن مار دوں۔میں نے کہا اے اللہ کے رسول! میں نے اسے پناہ دی ہے۔پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ کر آپ کا سر پکڑ لیا اور کہا خدا کی قسم! آج رات میرے سوا کوئی اور آپ سے سرگوشی نہ کرے گا۔‘‘[1]
اس طرح اس رات حضرت ابو سفیان کو حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے ذریعے امان ملی۔
|