Maktaba Wahhabi

337 - 391
اس لیے سب لوگ اتنی گہری نیند سوگئے کہ سورج پوری طرح نکل آیا۔سب سے پہلے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بیدار ہوئے۔لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب آپ سو رہے ہوتے تھے،تو بیدار نہیں کیا جاتا تھا،حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ہی اٹھ جاتے۔اس دوران حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی بیدار ہوگئے۔آخر حضرت ابوبکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سرمبارک کے قریب بیٹھ گئے اور بلند آواز سے اللہ اکبر کہنے لگے۔اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی بیدار ہوگئے۔اور وہاں سے کوچ کا حکم دیا۔(پھر کچھ فاصلے کے بعد) آپ اترے اور ہمیں صبح کی نماز پڑھائی۔‘‘[1] ایک اور حدیث مبارکہ ملاحظہ فرمایے! ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ خیبر سے لوٹے تو رات کو چلے۔یہاں تک کہ آخر شب جب آپ نیند سے نڈھال ہوگئے اور اونگھنے لگ گئے تو اپنی سواری سے اتر پڑے اور بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کہ ’’بقیہ رات تم ہمارا پہرہ دو۔‘‘ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے نصیب میں جتنی نماز (تہجد) تھی،وہ انہوں نے ادا کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب گہری نیند کے مزے لیتے رہے۔پھر جب فجر کا وقت قریب آیا تو بلال رضی اللہ عنہ نے مشرق کی طرف منہ کرکے اپنی سواری کے ساتھ ٹیک لگالی۔(سفر کی تھکاوٹ انہیں بھی تھی) چنانچہ ان کی آنکھوں پر بھی نیند کا غلبہ ہوا اور وہ اپنی سواری کے ساتھ ٹیک لگا کے سو گئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،بلال یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے کوئی بھی (نماز فجر کے وقت) بیدار نہ ہوا۔سب سوئے رہے،یہاں تک کہ سورج طلوع ہوگیا۔
Flag Counter