۱۶۔ وہ ہار سیّدہ عائشہ کی ہمشیرہ محترمہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا کا تھا اور ام المومنین رضی اللہ عنہا کے پاس ان کی امانت تھی۔اس لیے اس ہار کی تلاش ضروری تھی۔
۱۷۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے محبت نبوی کے پاکیزہ جذبے سے سرشار ہوکر اپنی لخت جگر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو زجر و توبیخ کی۔
۱۸۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اعلیٰ ترین ایمان کی دلیل کہ آپ نے اپنی عزیز از جان بیٹی کی محبت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو ترجیح دی۔
۱۹۔ سیّدہ رضی اللہ عنہا کا اپنے شوہر علیہ الصلوٰۃ والسلام سے محبت کا اچھوتا اور دل موہ لینے والا انداز کہ باپ کی ڈانٹ ڈپٹ اور کچوکے برداشت کر رہی ہیں۔مگر نہ تو زبان سے اف کر رہی ہیں اور نہ معمولی سی بھی حرکت کر رہی ہیں کہ کہیں آقائے کائنات اور سیّدہ کے تاجدار صلی اللہ علیہ وسلم بے آرام نہ ہو جائیں۔
۲۰۔ بلاشبہ آپ کی آنکھ سوتی تھی،مگر دل بیدار رہتا تھا۔کیسے ممکن تھا،آپ جاگتی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہوں اور پھر بھی اپنی اہلیہ کو ان کے والد کی ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ سے نہ بچائیں ؟
۲۱۔ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کے بیدار رہنے کی کیا کیفیت ہوتی تھی؟ لیکن ہمارا اس پر بلا کم و کاست اور پختہ یقین و ایمان ہے کہ آپ کا دل بیدارہوتا تھا۔
۲۲۔ آل ابوبکر کی عظمت کو سلام کہ ان کی وجہ سے امت کو تیمم ایسی سہولت ملی۔
۲۳۔ سفر کی بے حد تھکاوٹ کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی گہری نیند سو رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی موجودگی میں اپنے خیمے میں پیش آنے والے محبت نبوی کے اس عظیم واقعے سے بے خبر تھے۔
۲۴۔ جن کا خمیر نور سے اُٹھا ہو،جو ’’نور من نور اللہ‘‘ ہوں،بشر نہ ہوں،ان کو ایسی گہری
|