حکومت کی جاتی تھی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ خلفاء راشدین کا سیکرٹریٹ تھا۔جہاں دن میں پانچ اوقات میں امیر المومنین خود نماز باجماعت کی امامت کراتے تھے۔اور آج ....انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔آج حال یہ ہے کہ مسلمان حکمرانوں کو سورہ فاتحہ یا سورہ اخلاص تک نہیں آتی۔نماز کس نے ادا کرنی ہے۔جو بدنصیب خود نماز ادا نہ کرسکتے ہوں،وہ امت کی امامت کا فریضہ کیسے انجام دے سکتے ہیں۔
ہماری مساجد گرمیوں میں سرد اور سردیوں میں گرم ہوتی ہیں۔دبیز قالین بچھے ہوتے ہیں۔رنگ برنگی روشنیوں سے جگمگا رہی ہوتی ہیں،رات میں دن کا منظر ہوتا ہے۔دیواروں اور محرابوں پر قسما قسم کی آرائش و زیبائش ہوتی ہے،مہنگے اور نفیس فانوس لٹک رہے ہوتیہیں،لیکن ....لیکن یہ کہ رمضان کریم اور جمعۃ المبارک کے علاوہ مساجد اپنی ویرانی پر نوحہ خواں ہوتی ہیں کہ یہ کیسے مرضی کے مسلمان ہیں۔آج اگر ہماری مساجد ویران ہیں تو اس بربادی کا سبب کوئی غیر نہیں،یہ یہود و نصاریٰ کی سازش نہیں۔جیسا کہ ہم ہر منفی بات کے پس منظر میں غیر مسلموں کو الزام دینے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنے گریبان میں جھانکنے کی زحمت نہیں کرتے ؎
میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خود دکھایا ہے میرے گھر کے چراغاں نے مجھے
بات دور نکل گئی۔عنوان تھا کہ مسجد نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں کنکر بچھانے کی ابتداء کیسے ہوئی؟ تو سنیے امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب کے جلیل القدر بیٹے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی زبانی!
ابو ولید کہتے ہیں کہ:
’’میں نے حضرت ابن عمر سے دریافت کیا کہ مسجد میں ان کنکریوں کے بچھانے کی ابتداء کیسے ہوئی؟ حضرت ابن عمر نے فرمایا: (اس کی ابتداء یوں
|