جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا عباس رضی اللہ عنہ کی رفاقت میں رات کے اندھیرے میں مدینہ والوں کی ملاقات اور بیعت کے لیے گھاٹی کی طرف جارہے ہوں گے،اس وقت حضرت آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے دل و دماغ کی کیا کیفیت ہو گی؟ آپ آنے والے لمحات کے بارے میں کیا کیا نہیں سوچ رہے ہوں گے؟ اس لیے کہ یہ آپ کی تیرہ سال کی جدو جہد میں ایک انقلابی موڑ تھا۔اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیعت کے بعد واپس لوٹ رہے ہوں گے،اس وقت آپ کا قلب اطہر کس قدر مطمئن اور مسرور ہو گا....سبحان اللہ! میں اپنے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام اور ان کے رفقائے ذی وقار پر قربان۔ان لوگوں کی خوش بختی پر جتنا بھی رشک کیا جائے،کم ہے،جو اس رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نرم و ملائم ہاتھوں میں اپنا ہاتھ دے رہے تھے اور یہ عہد کر رہے تھے کہ آقا! جہاں آپ کا پسینہ گرے گا....نہیں،نہیں،ہم آپ کا پسینہ بھی گرنے کی نوبت نہیں آنے دیں گے....ہمارا خون پہلے گرے گا۔رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ۔
اللہ تعالیٰ ان نفوس قدسیہ سے ہمیشہ کے لیے راضی ہو گیا جنہوں نے اپنا سب کچھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کر دیا۔سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم کی ان یادگار اور بابرکت ساعتوں کا تذکرہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کی بات پر سمیٹتا ہوں۔وہ بیان کرتے ہیں :
’’میں بارگاہِ نبوت میں بیعت عقبہ کی رات حاضر تھا اور ہم نے اسلام پر ثابت قدم رہنے کی بیعت کی تھی۔لوگ تو بدر میں حاضری کو زیادہ پسند کرتے ہیں لیکن میرے نزدیک بیعت عقبہ میں موجودگی بدر کی حاضری سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔‘‘[1]
|