رب کے پاس جائیے لیکن میں نے کہا کہ اب مجھے اپنے رب سے شرم آتی ہے۔پھر جبرئیل مجھے سدرۃ المنتہیٰ تک لے گئے جسے کئی طرح کے رنگوں نے ڈھانپ رکھا تھا جن کے متعلق مجھے معلوم نہیں ہوا کہ وہ کیا ہیں۔اس کے بعد مجھے جنت میں لے جایا گیا۔میں نے دیکھا کہ اس میں موتیوں کے ہار ہیں اور اس کی مٹی مشک کی ہے۔‘‘[1]
سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اوراق کا مطالعہ کریں تو شب معراج کی الگ ہی شان نظر آتی ہے۔یہ ایک محیر العقول واقعہ تھا۔اس سے پہلے اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی تھی۔مکہ کے کافروں میں سے ابوجہل نے سب سے پہلے یہ قصہ سنا۔اس نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد حرام میں ایک طرف بیٹھے ہیں۔پوچھنے لگا کیا کوئی نئی بات ہوئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں۔رات مجھے بیت المقدس کی سیر کرائی گئی ہے۔‘‘ وہ کہنے لگا رات آپ گئے اور صبح یہاں آ موجود ہوئے۔آپ سب کے سامنے یہ روداد سناؤ۔چنانچہ ابو جہل نے اسی وقت آواز لگائی۔لوگ اکٹھے ہو گئے۔پھر انہوں نے سارا واقعہ سنا۔اس کے بعد ہر کسی کا اپنا ردعمل تھا کوئی مذاق اڑا رہا تھا اور کوئی جھوٹ کی تہمت لگا رہا تھا۔معاذ اللہ،کچھ ایسے کمزور ایمان والے بھی تھے کہ اس واقعے کی ناقابل یقین سچائی کی تاب نہ لا سکے اور واپس کفر کی طرف لوٹ گئے۔
پھر کسی نے کہا کہ آپ ہمیں وہاں کی نشانیاں بتائیں۔وہ سوال کرتے گئے اور آپ انہیں بتاتے گئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بعض سوالات تو اتنے باریک تھے کہ مجھے گھبراہٹ سی ہونے لگی لیکن اسی وقت مسجد اقصیٰ میرے سامنے کر دی گئی۔حجابات ہٹا دئیے گئے۔چنانچہ ان کے تمام سوالات کا تسلی بخش جواب دے دیا۔جو لوگ مسجد اقصیٰ دیکھ چکے تھے،وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جوابات کی تصدیق کر رہے تھے۔
|