کیاکہ شاید شب قدر کی سعادت حاصل ہو جائے۔وہ تو جبرائیل علیہ السلام نے آکر خبر دی کہ مطلوب و مقصود سے آپ ہنوز دور ہیں۔آپ کا اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ دوسرے عشرے کا اعتکاف کرنا ایک بار پھر واضح کر گیا کہ جن کے اشاروں پر چاند دو ٹکڑے ہوا،جن کی انگلیوں سے چشمے رواں ہوگئے،جن کی آمد پر جنت کے دروازے کھلیں گے،ان کے رب نے انہیں شب قدر کی خبر نہیں دی۔پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیسرے عشرے کا اعتکاف فرمایا اور شب قدر کی ایک نشانی کہ آپ مٹی کے گیلے فرش پر سجدہ کر رہے ہوں گے،اس سے اپنے اصحاب کو آگاہ فرمایا۔
اللہ رب العزت چاہتے تو اس رمضان المبارک کی اوّلین تاریخوں میں وحی کے ذریعے ایک لمحے سے بھی پہلے اپنے محبوب علیہ السلام کو شب قدر کے بارے میں باخبر فرما سکتے تھے۔لیکن باری تعالیٰ کا اپنے پیارے کو آگاہ فرما کر بھلا دینا اور پھر دوبارہ آگاہ نہ فرمانا،اس میں بھی ہمارے لیے پیام توحید ہے۔
ذرا سوچئے! کیا یہ ممکن تھا کہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم شب قدر کے بارے میں تعین سے سب کچھ جاننے کے باوجود اپنے ساتھیوں کو مسلسل تیس (۳۰) دن اعتکاف کی مشقت اٹھانے دیتے؟ اس رؤوف و رحیم پیغمبر[1]کے متعلق یہ سوچنا بھی سوئے ادب ہوگا۔
پھر جب آخری عشرہ آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاف الفاظ میں فرما دیا کہ مجھے بھلا
|