۲۔ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ نہ تو کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت تھی اور نہ کسی اور کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت کا ادراک تھا۔انہیں آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبے کا جس قدر شعور تھا،کسی کو نہ تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے ادبی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کوئی ایسا لفظ جو حفظ مراتب کے منافی ہو،وہ ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
۳۔ حضرات صحابہ کا بعد از وفات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کی کیفیت و ماہیت کے بارے میں لا علم ہونا بھی واضح ہو رہا ہے کہ علم و فقاہت کے بحر بے کراں اور شان و عظمت میں بے مثال ہونے کے باوجود اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہ تھا کہ انبیاء کرام کے اجساد مبارکہ اپنی وفات کے بعد اپنی قبور میں کس حالت میں ہوتے ہیں۔
۴۔ اس حدیث مبارکہ میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کے لیے صحابہ نے یہ لفظ استعمال کیے:
’’وَقَدْ اَرِمْتَ؟‘‘
اگر یہ لفظ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت کے منافی ہوتا تو یہ ممکن ہی نہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عالی قدر اصحاب ....کہ تمام اُمتوں میں ان ایسا کوئی نہیں ....یہ لفظ استعمال کرتے۔وہ تو آپ کے حضور حد ادب سے نظریں جھکائے رہتے۔جب آپ کا اشارہ ہوتا،وہ گفتگو کرتے ورنہ کسی کی مجال نہ تھی کہ لبوں کو حرکت دیتا،نظروں کو جنبش دیتا۔اس لیے ادب و احترامِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہی قرینے اور وہی اسلوب معتبر ہوں گے جو بارگاہ نبوت میں حاضری دینے والوں نے سیکھے اور ان پر عمل کیا۔مصنوعی عقیدت سے جنم لینے والے خود ساختہ ادب و احترام کے تمام مظاہر ناقابل اعتبار ہوں گے اور پھر ان مظاہر کو حرز جاں بنا کر متبعین کتاب و سنت کو گستاخ رسول قرار دینا تو حد درجہ ظلم اور ایک ناقابل برداشت اذیت پہنچانے کے مترادف ہے۔
|