Maktaba Wahhabi

147 - 391
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا کہ کوئی شخص تنہا رات گزارے یا وہ اکیلا سفر کرے۔‘‘[1] تنہا رات گزارنے اور اکیلے سفر کرنے کے آخر کچھ تو مفاسد ہوں گے جن کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی۔اب بجائے اس کے کہ ان مفاسد،نقصانات اور ممانعت کی حکمت اور وجوہ تلاش کی جائیں،کیا ہمارے لیے یہی کافی نہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی ہمارا بہی خواہ نہیں ہوسکتا۔جب انہوں نے ان امور سے منع فرما دیا تو ایک مسلمان کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔البتہ اگر کسی بے چین روح کو اس وقت تک اطمینان قلب نہیں ہوگا،کہ جب تک وہ ان ممنوعہ امور کے اسباب و علل کی کھوج نہ لگالے تو وہ جان لے کہ اگر بس،ٹرین یا جہاز میں سب مسافروں کے ساتھ انسان سفر کرے تو وہ اکیلا تو ہوگا تنہا نہیں ہوگا۔یعنی اس کے ساتھ اس کے اہل خانہ یا دوست احباب اگر نہیں بھی ہوں گے تو دیگر مسافروں کی موجودگی میں وہ تنہائی کا شکار نہیں ہوگا۔خدانخواستہ کسی حادثے کی صورت میں وہ بالکل بے یارومددگار نہیں رہے گا۔اگر وہ اپنی ذاتی سواری پر تنہا سفر کر رہا ہو،اس کی گاڑی خراب ہو جائے یا اللہ نہ کرے کہ اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آجائے تو پھر اسے لمحے بھر سے بھی پہلے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر یقین آجائے گا۔اس لیے حتی الامکان رات کی تنہائی اور اکیلے سفر سے گریز کرنا چاہیے۔بلکہ حدیث شریف میں دو افراد کے سفر کو بھی ناپسند کیا گیا۔عمرو بن شعیب اپنے جد امجد ( رضی اللہ عنہ ) سے یہ حدیث مبارکہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اکیلا شیطان ہے،اور دو (بھی) شیطان ہیں اور تین تو جماعت ہیں۔‘‘[2]
Flag Counter